نغمۂ دہلی
دیکھو نگہ شوق سے دہلی کے نظارے
تہذیب کی جنت ہے یہ جمنا کے کنارے
یہ اندر کے رنگین اکھاڑے کی پری ہے
صدیوں میں یہ زیور سے تمدن کے سجی ہے
جمہور نے اس شوخ کے گیسو ہیں سنوارے
دیکھو نگہ شوق سے دہلی کے نظارے
ہر ایک عمارت سے عیاں جاہ و حشم ہے
ہر اینٹ پہ تاریخ وطن اس کی رقم ہے
ہر ذرے میں ہیں عظمت رفتہ کے ستارے
دیکھو نگہ شوق سے دہلی کے نظارے
مینار وہ مینارۂ عظمت جسے کہئے
مسجد وہ کہ سجدہ گہ فطرت جسے کہئے
فنکاروں نے مٹ مٹ کے ہیں ہر نقش ابھارے
دیکھو نگہ شوق سے دہلی کے نظارے
درویشوں نے بھی اس پہ محبت کی نظر کی
ولیوں نے سدا پھولنے پھلنے کی دعا دی
یہ زندہ و پائندہ ہے خواجہ کے سہارے
دیکھو نگہ شوق سے دہلی کے نظارے
یہ غالبؔ و آزردہؔ و خسروؔ کی چہیتی
گہوارۂ اردو ہے ابھی داغؔ کی دہلی
دل میں ابھی اس کے ہیں محبت کے شرارے
دیکھو نگہ شوق سے دہلی کے نظارے
بچپن سے رہی گردش دوراں کی سہیلی
ہر دور میں یہ گردش ایام سے کھیلی
بگڑے جو کبھی وقت نے ابرو ہیں سنوارے
دیکھو نگہ شوق سے دہلی کے نظارے
اب خلد کی تصویر ہیں یہ کوچہ و بازار
یہ زہرہ جبیں خندہ بہ لب پیکر انوار
جس طرح اتر آئے ہوں گردوں سے ستارے
دیکھو نگہ شوق سے دہلی کے نظارے
دہلی نہیں یہ عظمت مشرق کا نشاں ہے
اس دور میں بھی نغمہ گر امن و اماں ہے
مغرب سے کہو رفعتؔ دہلی کو پکارے
دیکھو نگہ شوق سے دہلی کے نظارے