یہ کسی جسم کی اداسی ہے

یہ کسی جسم کی اداسی ہے
جو مسلسل مجھے بلاتی ہے


منزلیں ٹھیک ہے الگ ہوں گی
بات تو یار راستے کی ہے


روتے روتے کسی سہارے کو
پیٹھ دیوار سے لگا لی ہے


نیند بھی آ چکی ہے آنکھوں تک
رات بھی ختم ہونے والی ہے


زندگی نے بہت اجاڑا مجھے
میں نے تب زندگی اجاڑی ہے