ترے خیال سے ذرا خوشی ہوئی

ترے خیال سے ذرا خوشی ہوئی
اداسی تھوڑی دیر ملتوی ہوئی


درخت شب چراغ اور تیرگی
تمہارے بعد سب سے دوستی ہوئی


ترے بدن کو چھو رہی تھیں انگلیاں
ہتھیلیوں میں تیز روشنی ہوئی


اسے لگا مجھے یقین ہو گیا
وہ خوش بہت ہے جھوٹ بولتی ہوئی


بنا دی اس نے چھو کے زندگی مری
چلا دی اس نے ریل اک رکی ہوئی