سہولت غم ہجراں کو کم کیا جائے
سہولت غم ہجراں کو کم کیا جائے
گھٹن میں تازہ اداسی کو ضم کیا جائے
کتاب میں تو کئی پھول تم نے رکھے ہیں
مری جبیں پہ بھی بوسا رقم کیا جائے
میں پورے دن کی تھکن گھر میں لے کے آیا ہوں
اداسیو مجھے پھر تازہ دم کیا جائے
کئی گلاب اگانے ہیں اس جگہ مجھ کو
بدن کی خشک زمینوں کو نم کیا جائے
درخت ٹوٹتے پتوں کا دکھ سمجھتے ہیں
انہیں بھی شامل یاران غم کیا جائے
طبیب نے مرے نسخے میں یہ لکھا سرمدؔ
مریض عشق ہے غزلوں کا دم کیا جائے