اداس ہونٹوں سے اتنی ہنسی نکلتی ہے
اداس ہونٹوں سے اتنی ہنسی نکلتی ہے
کہ تپتی ریت سے جتنی نمی نکلتی ہے
وہ جب بھی رات کو چھت پر ٹہلنے جاتا ہے
بہت جھجھکتے ہوئے چاندنی نکلتی ہے
مجھے سکوں نہیں دیتی ہیں اب تری یادیں
اب ان دیوں سے بہت تیرگی نکلتی ہے
ہماری آنکھ میں خوشیاں تلاشنے والے
کبھی بھی ریت سے کیا جل پری نکلتی ہے
یہ ایک چشمہ کبھی سوکھتا نہیں سرمدؔ
ہماری آنکھ ہمیشہ بھری نکلتی ہے