یہ کس مہم پر چلے تھے ہم جس میں راستے پر خطر نہ آئے

یہ کس مہم پر چلے تھے ہم جس میں راستے پر خطر نہ آئے
ہمیں نوازا نہ وحشتوں نے ہمیں جنوں کے ہنر نہ آئے


مجھے بہت تیز دھوپ درکار ہے محبت کے اس سفر میں
کبھی کہیں سر پہ سایہ کرنے کوئی گھنیرا شجر نہ آئے


اندھیری شب کا یہ خواب منظر مجھے اجالوں سے بھر رہا ہے
تو رات اتنی طویل ہو جائے تا قیامت سحر نہ آئے


جہاں ہوں تیری ہی رونقیں اور ترے نظارے ہی چاروں جانب
اس انجمن کا پتا بتا دے جہاں سے میری خبر نہ آئے


جو لوٹ آئے کوئی سفر سے تو پھر مسافر کہاں رہا وہ
وہی مسافر ہے جو سفر میں ہے اور کبھی لوٹ کر نہ آئے


وہ آسمانوں میں رہنے والا سنے گا اک دن تری علیناؔ
صدا کو اپنی بلند رکھ تو دعا میں جب تک اثر نہ آئے