بن گیا تدبیر سے ہر راستہ تقدیر کا
بن گیا تدبیر سے ہر راستہ تقدیر کا
اب نہیں کچھ خوف پیروں کو کسی زنجیر کا
کر دیا خاموش شعلوں نے جلا کر ہر ورق
لفظ پھر بھی چیختا اک رہ گیا تحریر کا
خاک سرگرداں ہے ہر سو کچھ نہیں بدلا یہاں
دیکھتی ہیں اب بھی راہیں راستہ رہ گیر کا
ایک رخ پر تھیں بہاریں ایک رخ بے رنگ و نور
اور میری سمت تھا بے رنگ رخ تصویر کا
جب نشانے پر مرے دل کے سوا کچھ بھی نہ تھا
پھر اثر ہوتا نہ کیوں تیری نظر کے تیر کا
ہم فقیری میں علیناؔ شاد ہیں آباد ہیں
کیا ہمیں کرنا ہے تیری دولت و جاگیر کا