بعد سورج کے بھی ہم کو زندگی اچھی لگی
بعد سورج کے بھی ہم کو زندگی اچھی لگی
شب کی فطرت میں تھی جو اک بیکلی اچھی لگی
پہلے پہلے کچھ ہراساں سے تھے ہم تنہائی سے
چاند تارے آ گئے پھر خامشی اچھی لگی
بندشوں کو توڑنے کی کوششیں کرتی ہوئی
سر پٹکتی لہر تیری عاجزی اچھی لگی
رات بھر شبنم کے ہاتھوں بن سنور جانے کے بعد
پھول کے چہرے پہ بکھری تازگی اچھی لگی
اس کے شعروں میں محبت کے سوا کچھ بھی نہ تھا
پر علیناؔ کو یہی دیوانگی اچھی لگی