بس نجات زندگی تو عشق روحانی میں ہے

بس نجات زندگی تو عشق روحانی میں ہے
یہ سزائے موت سن کر جسم حیرانی میں ہے


ریت پر پھیلا ہوا ہے خواب جیسا اک سراب
خشک آنکھوں کا سکوں صحرا کے اس پانی میں ہے


اضطرابی کیفیت ہی اس زمیں کا ہے نصیب
ہر گھڑی گردش میں ہے ہر دم پریشانی میں ہے


کچھ غبار آنکھوں تک آیا راز ہم پر تب کھلا
قافلہ اب بھی کوئی اس دل کی ویرانی میں ہے


پھر کسی طوفان کی آمد کا اندیشہ ہوا
پھر قیامت سی بپا دریا کی طغیانی میں ہے


یوں ہی آسانی سے جینے کا ارادہ کر لیا
یہ نہ دیکھا کتنی مشکل ایسی آسانی میں ہے


اس قدر اوراق ماضی پر چڑھا گرد و غبار
شاید اب ان کی جگہ بہتے ہوئے پانی میں ہے


اپنی مٹی سے علیناؔ روح کی الفت تو دیکھ
مضطرب ہے یہ بہت گر تو پریشانی میں ہے