گونجتی وادی میں آواز ابھی باقی ہے
گونجتی وادی میں آواز ابھی باقی ہے
تار ٹوٹے ہیں تو کیا ساز ابھی باقی ہے
پھر زمیں کھینچ رہی ہے مجھے اپنی جانب
میں رکوں کیسے کہ پرواز ابھی باقی ہے
موت سے پہلے مری موت کو لکھنے والے
میرے انجام کا آغاز ابھی باقی ہے
تو ادھر ہے کہ نہیں اتنا بتا دے مجھ کو
سارے پردے اٹھے پر راز ابھی باقی ہے
وقت نے گرد کیا پھول سے چہروں کا جمال
پر ادا باقی ہے انداز ابھی باقی ہے