یہ کس کے نقش پا سے ایسا سلسلہ چراغ تھا

یہ کس کے نقش پا سے ایسا سلسلہ چراغ تھا
کہ مجھ کو یوں لگا کہ سارا راستہ چراغ تھا


ذرا سی دیر میں ہی خد و خال شب بدل گئے
نہ شکل کوئی چاند تھی نہ آئنہ چراغ تھا


سوال یہ ہے روشنی وہاں پہ روک دی گئی
جہاں پہ ہر کسی کے ہاتھ میں نیا چراغ تھا


بہت سے ہاتھ صبح کی دعا ہی کرتے رہ گئے
میں پر امید تھا کہ میرا حوصلہ چراغ تھا


کہیں کہیں سے جھڑ رہی تھی بھربھری سی روشنی
ہوائے شب کے غم میں کیسا مبتلا چراغ تھا


ذرا سی کیا ہوا چلی کہ لوگ سٹپٹا گئے
وہی گنوا دیا گیا جو رات کا چراغ تھا