گزرتی ہے جو ہم پر رفتگاں ہم کچھ نہیں کہتے

گزرتی ہے جو ہم پر رفتگاں ہم کچھ نہیں کہتے
تمہیں آ کر سنائیں گے یہاں ہم کچھ نہیں کرتے


ہماری خامشی کے بھی کئی مفہوم ہوتے ہیں
وہاں بھی کچھ تو کہتے ہیں جہاں ہم کچھ نہیں کہتے


زمیں کے دکھ سناتے ہیں زمیں کی بات کرتے ہیں
کبھی اپنے لیے اے آسماں ہم کچھ نہیں کہتے


کبھی دل سے گزرتی ہو کہیں آنکھوں سے بہتی ہو
تجھے پھر بھی کبھی جوئے رواں ہم کچھ نہیں کہتے


اندھیرے سے مزہ آتا ہے کچھ تکرار کرنے میں
تجھے تو اے چراغ نیم جاں ہم کچھ نہیں کہتے