تب اس نے مری چھاؤں کا احسان لیا ہے
تب اس نے مری چھاؤں کا احسان لیا ہے
جب مجھ کو پرندوں نے شجر مان لیا ہے
ڈرتا ہوں زمیں اس کا برا مان نہ جائے
تھوڑا سا فلک سر پہ اگر تان لیا ہے
آوارہ مزاجی کی تسلی نہیں ہوتی
میں نے تو ترا سارا جہاں چھان لیا ہے
بس حکم ملا اور نکل آئے وہاں سے
چلتے ہوئے عجلت میں ہی سامان لیا ہے
یہ زیست تو گوہرؔ مجھے ورثے میں ملی تھی
دنیا نے مگر اس کا بھی تاوان لیا ہے