یہ خلق جب طلب جاہ میں پڑی ہوئی تھی

یہ خلق جب طلب جاہ میں پڑی ہوئی تھی
تو میری ذات تری چاہ میں پڑی ہوئی تھی


تو اپنی بے خبری میں جہاں سے گزرا تھا
یہ میری عمر وہیں راہ میں پڑی ہوئی تھی


کہیں بھی دور تک اس کا کوئی نشان نہ تھا
وہ صرف میری طلب گاہ میں پڑی ہوئی تھی


میں لفظ ڈھونڈھتا رہتا تھا جس کے کہنے کو
وہ ساری بات مری آہ میں پڑی ہوئی تھی


میں خود کو لگ رہا تھا چودھویں کی شب جیسا
کہ میری جان بھی اک ماہ میں پڑی ہوئی تھی