دشت کے بیچ میں تالاب نظر آتے ہیں
دشت کے بیچ میں تالاب نظر آتے ہیں
ہم غریبوں کو فقط خواب نظر آتے ہیں
چاندنی کھل کے جو برسے کبھی صحراؤں میں
ریت کے ذرے بھی مہتاب نظر آتے ہیں
جھونپڑے والے تو سوتے ہی نہیں ساون میں
سوئیں تو خواب میں سیلاب نظر آتے ہیں
دل تڑپ اٹھتا ہے جب چاند ستارے مجھ کو
کالے تالاب میں غرقاب نظر آتے ہیں
چند راحت بھرے لمحات کی خواہش میں عبیدؔ
شہر والے سبھی بیتاب نظر آتے ہیں