سایہ کیے ہوئے تھا جو بادل نہیں رہا

سایہ کیے ہوئے تھا جو بادل نہیں رہا
آفات کا یہ مہر مگر ڈھل نہیں رہا


سر پر تھی اس کی چھاؤں تو موجود تھے حواس
پگلا گئے ہیں ہم کہ وہ آنچل نہیں رہا


جیون کی شاہراہ کو روشن کیے ہوئے
اک ہی تو قمقمہ تھا جو اب جل نہیں رہا


اک خوبرو پرندہ بڑی دور جا بسا
اب خواہشوں کا باغ مکمل نہیں رہا


ٹھہرے ہوئے تھے ہم تو چلے جا رہا تھا وقت
جب ساتھ چل دئے ہیں تو اب چل نہیں رہا


دیکھا تو اس طرف کوئی موجود ہی نہ تھا
جب درمیان خوف کا دلدل نہیں رہا


میرے تخیلات نے جادو سا کر دیا
وہ سامنے نہ ہو کے بھی اوجھل نہیں رہا