یہ جن پر چل رہے ہیں اہل جادہ

یہ جن پر چل رہے ہیں اہل جادہ
ہے میرے نقش پا سے استفادہ


تمہاری جیب میں لطف یقیں ہے
مرے کشکول میں ہے صرف وعدہ


وہ چاہے جب ہمیں اذن سفر دے
کئے بیٹھے ہیں ہم پکا ارادہ


اجازت ہو تو تیرا نام لکھ دوں
کتاب دل کا اک صفحہ ہے سادہ


غزل خواں ہو رہا ہے وہ کہ جو ہے
غزل کی سلطنت کا شاہزادہ


ملاقات ان سے ہو جاتی ہے جب ہم
نکل پڑتے ہیں گھر سے بے ارادہ


وہی پیر سخن ہے شانؔ جس کا
کوئی شجرہ نہ کوئی خانوادہ