اسی امید پر ہم شہر سے باہر نکل آئے
اسی امید پر ہم شہر سے باہر نکل آئے
کہ اس سے غالباً صورت کوئی بہتر نکل آئے
ہر اک منظر سے بالآخر کئی منظر نکل آئے
ہمارے حوصلوں کے جب سے بال و پر نکل آئے
ہماری سچی باتوں کا کوئی حامی نہیں ٹھہرا
تمہاری جھوٹ کی تصدیق میں لشکر نکل آئے
خوشی کا بھی بھرم رکھا نہ اشکوں نے سر محفل
توقع تو نہ تھی ان سے مگر باہر نکل آئے
ابھی تو آبلے ماضی کے بھی پھوٹے نہیں تھے شانؔ
کہ مستقبل کے اتنے زخم پھر دل پر نکل آئے