سیپی ہیں سب کے پاس گہر کس کے پاس ہے
سیپی ہیں سب کے پاس گہر کس کے پاس ہے
جو میرے پاس ہے وہ ہنر کس کے پاس ہے
چہرے پہ خاک آنکھ میں موتی لبوں پہ آہ
اس قاعدے کا رخت سفر کس کے پاس ہے
صحرا نورد پوچھتا پھرتا ہے شہر شہر
جو دے سکے پناہ وہ گھر کس کے پاس ہے
لب پر تو ہیں دعائیں مگر اے دل حزیں
تو خوب جانتا ہے اثر کس کے پاس ہے
الفاظ پر نہ روح معانی پہ حرف آئے
یہ اعتبار حرف دگر کس کے پاس ہے
خاموش ہے جو شمع زباں مل سکے اسے
یہ شعلگیٔ حرف ہنر کس کے پاس ہے
موسم کا یہ عذاب روش در روش ہے شانؔ
اب امتیاز نخل و ثمر کس کے پاس ہے