یہ دنیا آنی جانی ہے کوئی دائم نہیں رہتا

یہ دنیا آنی جانی ہے کوئی دائم نہیں رہتا
سدا خوشیاں نہیں رہتیں ہمیشہ غم نہیں رہتا


لہو کو گرم رکھتی ہے مسائل کی گراں باری
دل مردہ اسے کہیے کہ جس میں غم نہیں رہتا


یہی بستی ہے جس کے ہر گلی کوچے سے نسبت تھی
مگر اب یاں کوئی ہمدم کوئی محرم نہیں رہتا


نکل اب اپنے مسکن سے مقدر ہے ترا ہجرت
کہ دریا اپنے مخرج پر بھی تو قائم نہیں رہتا


بدلتی رہتی ہیں قدریں بدل جاتی ہیں تہذیبیں
زمانہ ایک مسلک پر سدا قائم نہیں رہتا


زبانیں ارتقا کی منزلوں سے جب گزرتی ہیں
بہت سے لفظ کٹ جاتے ہیں جن میں دم نہیں رہتا


سروشؔ آخر یہاں کس کس کے در پر دستکیں دو گے
یہاں اغیار بستے ہیں کوئی محرم نہیں رہتا