یہ اور بات کہ اس سے ہے واسطہ دل کا
یہ اور بات کہ اس سے ہے واسطہ دل کا
جو آ گیا تو عجب حال ہو گیا دل کا
جو چاہے دیکھنا دیکھے وہ باطنی تصویر
اٹھائے ہاتھ میں پھرتا ہوں آئنہ دل کا
سکوں ملے تو فسردہ ہو اضطراب تو خوش
سمجھ سکا نہ کوئی بھی معاملہ دل کا
اب آخر ایسے مسافر کو کیا کہا جائے
جو پوچھتا ہے ہر اک گام فیصلہ دل کا
جو بے وفا ہیں وہی اپنوں جیسے لگتے ہیں
عجیب لوگوں سے رہتا ہے واسطہ دل کا
قبائیں وقت نے معنی کی لاکھ پہنائیں
مگر سمجھ نہ سکا کوئی فلسفہ دل کا
بچا کے رکھنا ہے اے شانؔ دوستی کا بھرم
وگرنہ کم نہیں ہونے کا فاصلہ دل کا