یہ عناصر سے بنا تن کا مکاں کچھ بھی نہیں

یہ عناصر سے بنا تن کا مکاں کچھ بھی نہیں
ماسوائے زحمت و بار گراں کچھ بھی نہیں


اس کی رحمت کے بنا ہے زندگی بے فائدہ
چار دن کا کھیل ہے عمر رواں کچھ بھی نہیں


جسم کی لذت کے پیچھے کیوں بھٹکتا ہے مدام
روح میں رب کو بسا لے جسم و جاں کچھ بھی نہیں


ہیں غرض کے رشتے ناطے ہو ضرورت تو لگاؤ
ورنہ باہم دوستوں کے درمیاں کچھ بھی نہیں


آج ہے تیری جو دولت چھوڑ بھی سکتی ہے ساتھ
سیم و زر املاک اراضی جاوداں کچھ بھی نہیں


ہے خدا روزی رساں جو مانگنا ہے اس سے مانگ
ہو نہ اس کا اذن تو ملتا یہاں کچھ بھی نہیں


روح کی گہرائیوں سے اس کی بن جا نازلیؔ
ایک تو ہو اور خدا ہو درمیاں کچھ بھی نہیں