وہ امتحان میں جب ہم کو ڈال دیتا ہے

وہ امتحان میں جب ہم کو ڈال دیتا ہے
جو لا جواب ہوں ایسے سوال دیتا ہے


وہ میری فکر تغزل میں ڈھال دیتا ہے
مرا خدا مجھے نازک خیال دیتا ہے


اتارتا ہے مرے ذہن پر نئے اشعار
دھنک کے رنگ غزل میں وہ ڈال دیتا ہے


یہ پنچھیوں کے جو نغمے سنائی دیتے ہیں
کوئی تو دیتا ہے سر ان کو تال دیتا ہے


پناہ دیتا ہے یوں پنچھیوں کو آنچل میں
درخت دھوپ کو سائے میں ڈھال دیتا ہے


وہ جس کی دین ہیں سانسیں اگر وہ چاہے تو
بشر کو موت کے منہ سے نکال دیتا ہے


نصیب قید ہے سب کا اسی کی مٹھی میں
وہی بشر کو عروج و زوال دیتا ہے


وہی دلوں پہ لگاتا ہے زخم اور وہی
دلوں کو ضبط کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے


خدا کا شکر کرو دلبرو کہ جو تم کو
وقار دیتا ہے حسن و جمال دیتا ہے


کروں میں اس کی ملامت نہیں مری تہذیب
جو نازلیؔ مجھے پل پل ملال دیتا ہے