وہ زمیں پر نہ آسمان میں تھا
وہ زمیں پر نہ آسمان میں تھا
آگ پانی کے درمیان میں تھا
جسم و جاں میں عجب رقابت تھی
عشق بے چارہ امتحان میں تھا
سر بکف میں بھی تھا سر مقتل
تیر وہ بھی لئے کمان میں تھا
سامنے برف کی ندی تھی مگر
بند آنکھیں کیے وہ دھیان میں تھا
پر سمیٹے ہوئے جو بیٹھا ہے
وہ پرندہ کبھی اڑان میں تھا
آگہی روح تک جلا دے گی
دوستوں یہ کہاں گمان میں تھا
وقت نے ہم سے وہ بھی چھین لیا
اک سہارا جو خاندان میں تھا
در پئے قتل ہے جو آج نیازؔ
یہ علاقہ مری کمان میں تھا