وہ نقد جان اور وہ بازار کیا ہوئے

وہ نقد جان اور وہ بازار کیا ہوئے
اے شہر میرؔ تیرے خریدار کیا ہوئے


یاران کج کلاہی کی صحبت کہاں گئی
بالائے بام ابروئے خم دار کیا ہوئے


وہ نغمہ خوان باد بہاری کدھر گئے
آشفتگان نرگس بیمار کیا ہوئے


وہ ہنر انقلاب کا موسم کہاں گیا
وہ آسماں پہ ابر گہربار کیا ہوئے


وہ علم و آگہی کے محافظ کدھر گئے
ظلمت کدہ میں نور کے مینار کیا ہوئے


آساں تھا جن کے دم سے کڑی دھوپ کا سفر
وہ شاہراہ زیست کے اشجار کیا ہوئے


جو تھے ہمارے شہر کی پہچان اے نیازؔ
وہ صاحبان جبہ و دستار کیا ہوئے