جو تیرے شہر سے میں در بدر نہیں ہوتا
جو تیرے شہر سے میں در بدر نہیں ہوتا
تو میرا عشق کبھی معتبر نہیں ہوتا
یہ عرش و فرش تری مٹھیوں میں ہوتے بند
تو اپنے حال سے گر بے خبر نہیں ہوتا
مزہ تو جب ہے مرے ساتھ ساتھ تو بھی چل
رہ وفا میں اکیلے سفر نہیں ہوتا
رہ حیات میں ایسا بھی موڑ آتا ہے
شریک حال کوئی ہم سفر نہیں ہوتا
تمام عمر نفس سے جہاد کرنا ہے
دو چار دن میں تو کوئی بشر نہیں ہوتا
اسی لئے تو بیاباں میں میرا مسکن ہے
حریف وعدہ شکن جانور نہیں ہوتا
ضرور کوئی کمی ہے نیازؔ جب ہی تو
جو اضطراب ادھر ہے ادھر نہیں ہوتا