وہ شخص دو کو ہمیشہ ہی تین کہتا ہے

وہ شخص دو کو ہمیشہ ہی تین کہتا ہے
کمال یہ بھی ہے خود کو ذہین کہتا ہے


زمانا اس کے لیے مہہ جبین کہتا ہے
وہ خود کو پھر بھی تو پردا نشین کہتا ہے


کہیں جو سچ تو ہے ممکن زبان ساتھ نہ دے
مگر وہ جھوٹ بہت بہترین کہتا ہے


ہے ٹوٹنا اسے اک دن ضرور ٹوٹے گا
گمان ہے یہ جسے تو یقین کہتا ہے


یہ بےوقوف بہت لگتی ہے عوام اسے
تبھی تو روز ہی جملے نوین کہتا ہے


کرو کسی سے بھی مذہب کے نام پر نفرت
بتائے کوئی ہمیں کون دین کہتا ہے


ہنر بھی خوب تجارت کا دیکھیے صاحب
سڑے ہوئے کو وہ تازہ ترین کہتا ہے


برائی کرتا ہے میری وہ پیٹھ پیچھے بھلے
ہر ایک شعر پہ تو آفرین کہتا ہے


یہ لفظ آتے ہیں دیدار حسن کا کرکے
غزل انیسؔ تبھی تو حسین کہتا ہے