وسیلی سی ہوائیں ہیں وطن میں

وسیلی سی ہوائیں ہیں وطن میں
گھلا ہے زہر یوں گنگ و جمن میں


قفس میں ہی لگے محفوظ رہنا
پرندے اب نہیں اڑتے گگن میں


لٹے گا کارواں کیسے نہیں اب
ہوئے رہبر ہی شامل راہزن میں


گلوں میں جلنے کی بو آ رہی ہے
لگائی آگ یہ کس نے چمن میں


سیاست کھیل اپنا کھیلتی ہے
لڑاتی اب عبادت اور بھجن میں


لٹاتے جان اپنی سرحدوں پر
جوان آتے ترنگے کے کفن میں


انیسؔ اس کو کہیں کیسے سخنور
لکھے تحریر زہریلی سخن میں