آپ رخ پر نقاب رکھتے ہیں
آپ رخ پر نقاب رکھتے ہیں
ابر میں ماہتاب رکھتے ہیں
تم کو سائے میں دھوپ لگتی ہے
سر پہ ہم آفتاب رکھتے ہیں
شوق سے کیجئے جفا ہم پر
ہم کہاں اب حساب رکھتے ہیں
تلخ لہجہ ہے آپ کا پھر بھی
لب پہ ہم جی جناب رکھتے ہیں
آپ پتھر اچھالیے بے شک
ہاتھ میں ہم گلاب رکھتے ہیں
شاعری آپ بھی کیا کیجے
شوق تو یہ نواب رکھتے ہیں
چبھتے ہو جو انیسؔ آنکھوں میں
ہم کہاں ایسے خواب رکھتے ہیں