سب جسے ماہتاب کہتے ہیں (ردیف .. ے)
سب جسے ماہتاب کہتے ہیں
تیرے رخ کا شباب کہتے ہیں
برگ گل سی ہے نازکی ان کی
ہم لبوں کو گلاب کہتے ہیں
لوگ آنکھوں سے پی بہکتے ہیں
چشم جام شراب کہتے ہیں
گیسوؤں سے ٹپکتی بوندوں کو
ابر سے گرتا آب کہتے ہیں
تیری پازیب کی ہوئی رنجھن
بج رہا جیوں رباب کہتے ہیں
دور ہو کر بھی پاس لگتی ہو
کیا اسی کو سراب کہتے ہیں
پڑھ سکو گے انیسؔ چہرے کو
لوگ اس کو کتاب کہتے ہے