ابھی تو اتنا اندھیرا نظر نہیں آتا

ابھی تو اتنا اندھیرا نظر نہیں آتا
تو ساتھ کیوں میرا سایا نظر نہیں آتا


ان آنکھوں سے یہ زمانہ تو دیکھ سکتا ہوں
بس ایک اپنا ہی چہرہ نظر نہیں آتا


جب ایک اندھا اندھیرے میں دیکھ لیتا ہے
مجھے اجالوں میں کیا کیا نظر نہیں آتا


بندھی یقین کی پٹی ہماری آنکھوں پر
سو چھل فریب یا دھوکہ نظر نہیں آتا


جو دکھ رہے ہیں وہ چابی کے سب کھلونے ہیں
یہاں تو کوئی بھی زندہ نظر نہیں آتا


تراشے بت کی تو تعریف سبھی کرتے پر
ہمارے ہاتھ کا چھالا نظر نہیں آتا


ابھی تو پھیلی یہاں دھندھ اتنی نفرت کی
کسی کو پیار کا رستہ نظر نہیں آتا


انیسؔ یوں تو ہزاروں سے روز ملتا ہوں
مگر مجھے کوئی تم سا نظر نہیں آتا