وہ شب کس تیرگی میں کھو گئی ہے
وہ شب کس تیرگی میں کھو گئی ہے
پلٹ کر پھر نہ آئی جو گئی ہے
ابھی آتی ہوں کہہ کر وہ گئی ہے
بہانا ہی بنا کر تو گئی ہے
محبت سوچ کر میں نے نہیں کی
محبت عادتاً پھر ہو گئی ہے
جو کہتی ہے کہ خوش ہے دور رہ کر
وہ میرا نام سن کر رو گئی ہے
تری خوشبو کا خط میں ذکر پڑھ کر
دوانی ایک تتلی ہو گئی ہے
شکستہ حال رسوا غم شناسا
فراق یار کی شب سو گئی ہے
خدا حافظ ہو اس کا جو محبت
فنا ہونے کی خاطر ہو گئی ہے