Tahir Adeem

طاہر عدیم

طاہر عدیم کے تمام مواد

27 غزل (Ghazal)

    جو تری بندگی سے ملتا ہے

    جو تری بندگی سے ملتا ہے لطف وہ کم کسی سے ملتا ہے ہے یہ کافی ترا مرا شجرہ ایک ہی آدمی سے ملتا ہے لاکھ برہم ہو وہ مگر یارو پھر بھی شائستگی سے ملتا ہے دن کو لگتا ہے دھوپ اس کا مزاج رات کو چاندنی سے ملتا ہے اب تو مجھ کو وہ میری رگ رگ میں دوڑتی سنسنی سے ملتا ہے ہوں مہ و مہر یا نجوم ...

    مزید پڑھیے

    نہ دیواریں ہیں اور نہ در پرانا

    نہ دیواریں ہیں اور نہ در پرانا ابھی تک پھر بھی ہے یہ گھر پرانا ڈرا دیتا جگا دیتا ہے مجھ کو درون ذہن بیٹھا ڈر پرانا مراحل آخری تعلیم کے ہیں مری ماں نے نکالا زر پرانا تماشا پھر وہی امسال ہوگا وہی دستار ہوگی سر پرانا سجا ماتم کنار دشت مژگاں سنا قصہ وہ چشم تر پرانا اگر ہے دسترس ...

    مزید پڑھیے

    مصیبت سر سے ٹلتی جا رہی ہے

    مصیبت سر سے ٹلتی جا رہی ہے ہماری عمر ڈھلتی جا رہی ہے کہاں ہے زندگی اب زندگی میں فقط اک نبض چلتی جا رہی ہے مسلسل بھاپ بن کر اڑ رہا ہوں مسلسل آگ جلتی جا رہی ہے عجب ہے سانحہ جینے کی خواہش مرے دل سے نکلتی جا رہی ہے خفا کیوں ہیں مرے حالات مجھ سے ہوا کیوں رخ بدلتی جا رہی ہے یہ سانسیں ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک رستۂ پایاب سے نکلنا ہے

    ہر ایک رستۂ پایاب سے نکلنا ہے سراب عمر کے ہر باب سے نکلنا ہے سر عناصر کمیاب سے نکلنا ہے شمار نادر و نایاب سے نکلنا ہے طویل تر سے کسی خواب میں اترنے کو ہر ایک شخص کو اس خواب سے نکلنا ہے لہو لہو سر مژگاں طلوع ہونا ہے کنار خطۂ پر آب سے نکلنا ہے اسے بھی پردۂ تہذیب کو گرانا ہے مجھے ...

    مزید پڑھیے

    کسی خاموش چہرے پر وہ اطمینان کا منظر

    کسی خاموش چہرے پر وہ اطمینان کا منظر جگر کو کاٹتا ہے اب بھی قبرستان کا منظر عذاب شدت کرب جدائی کو وہ کیا جانے کہ دیکھا ہی نہ ہو جس نے نکلتی جان کا منظر اٹھی کرسی کٹا سبزہ گرے پتے اڑی چڑیاں تمہارے بعد کیا سے کیا ہوا دالان کا منظر کہاں ہوں کون ہوں یہ پوچھتا پھرتا ہوں لوگوں سے کہ ...

    مزید پڑھیے

تمام