وہ میری بزم میں آئے تھے یوں نقاب کے ساتھ
وہ میری بزم میں آئے تھے یوں نقاب کے ساتھ
ہو جیسے ابر کا ٹکڑا بھی ماہتاب کے ساتھ
جو میں نے کہہ دیا کافر ادا تو کیوں بگڑے
زمانہ تم سے ہے واقف اسی خطاب کے ساتھ
یہ مانا میری خطا تھی کہ دل لگا بیٹھا
نظر تم آئے تھے کیوں فتنۂ شباب کے ساتھ
دیا جو منہ سے لگا کر تو کھنچ گئی تصویر
میں پی گیا ہوں تمہیں بھی اسی شراب کے ساتھ
ہے اشک آنکھوں سے جاری تو دل ہے شعلہ فشاں
عجیب ربط ہے آتش کا موج آب کے ساتھ
سمجھ میں آ نہ سکا جس کا فلسفہ اب تک
حروف دل کا تعلق ہے اس کتاب کے ساتھ
گلوں پہ قطرۂ شبنم کی زندگی کب تک
فنا ہے جس کے مقدر میں آفتاب کے ساتھ