باتونی میاں
رہتے ہیں قصبے میں میرے ایک باتونی میاں
روکنے سے بھی نہیں رکتی کبھی ان کی زباں
دھن یہی ہر دم ہے ان کی قوم کا لیڈر بنوں
قوم پیچھے ہو مرے میں قوم کے آگے رہوں
فرق کچھ تذکیر اور تانیث میں کرتے نہیں
گفتگو میں پھر بھی وہ لاتے ہیں الفاظ حسیں
ایک دن بولے کہ میں جاتا ہوں پڑھنے کے لئے
گھومتی ہے یہ زمیں اس کو سمجھنے کے لئے
مرغیاں دیتے ہیں انڈے مرغ کیوں دیتی نہیں
اس سے بڑھ کر ظلم دنیا میں نہیں کوئی نہیں
سن کے باتیں ان کی مجھ کو آ گئی فوراً ہنسی
یہ کہا میں نے مبارک آپ کو ہو لیڈری
میں ہنسا میری ہنسی پر ان کو طیش آ ہی گیا
میرے سر کو ایک ہی پتھر میں زخمی کر دیا
ہیں حقیقت میں مرے قصبے کے وہ روح رواں
دیکھ کر بچے انہیں کہتے ہیں اے بدھو میاں