جب نظر جا نہ سکے حد نظر سے آگے

جب نظر جا نہ سکے حد نظر سے آگے
کون سوچے کہ ہے کچھ اور بھی گھر سے آگے


منزل عشق میں ہم کو کوئی ایسا نہ ملا
جس کی منزل ہو تری راہ گزر سے آگے


جب تلک سائے میں بیٹھے ہو غنیمت جانو
دور تک دھوپ کا صحرا ہے شجر سے آگے


جو ترے در سے اٹھے ہیں انہیں معلوم کہاں
کوچۂ در بدری ہے ترے در سے آگے


منزلیں منتظر چشم تماشا ہی رہیں
قافلے جا نہ سکے گرد سفر سے آگے


خاورؔ اس شہر میں ہم اہل ہنر پر یہ کھلا
ایک شے بے ہنری بھی ہے ہنر سے آگے