کوچہ کوچہ تازہ ہواؤں کا کال ہے

کوچہ کوچہ تازہ ہواؤں کا کال ہے
اس شہر میں تو سانس بھی لینا محال ہے


اٹھتا ہے جو بھی ابر برستا ہے دشت پر
موسم کو میرے شہر کا کتنا خیال ہے


یہ موج تہ نشیں تو بڑا کام کر گئی
سمجھے ہوئے تھے ہم کہ ابھرنا محال ہے


رکھے ہیں خواہشات نے جب سے یہاں قدم
دل سبزۂ چمن کی طرح پائمال ہے


ملنے کے آج اس کے ہیں انداز ہی کچھ اور
بچھڑے گا عمر بھر کے لئے احتمال ہے


حالات گھر یہی ہیں تو پھر میری روح کا
میرے بدن کی قید میں رہنا محال ہے