تری طلب میں یہاں تک خراب حال ہوا
تری طلب میں یہاں تک خراب حال ہوا
کہ میں جہان محبت میں اک مثال ہوا
مرے قریب سے اکثر وہ اس طرح گزرا
نگاہ بھر کے اسے دیکھنا محال ہوا
وہ لوگ جن کی رفاقت کبھی نہ راس آئی
ہوئے جو دور تو دل کو بہت ملال ہوا
مجھے خبر ہے کہ وہ پیشتر نہ تھا ایسا
مری وفا سے جفا کا اسے خیال ہوا
دکھوں سے اپنی طبیعت تھی کس قدر بوجھل
برس گئیں یہ گھٹائیں تو جی بحال ہوا
طویل تھے جو وہی فاصلے سمٹ سے گئے
مرا شریک سفر جب ترا خیال ہوا
گزرنے والوں کے قدموں سے پائمال ہوا
میں ایک نقش سر رہ گزار تھا خاورؔ
گزرنے والوں کے قدموں سے پائمال ہوا