وہ کیا جئے گا جس کو کوئی تجربہ نہ ہو

وہ کیا جئے گا جس کو کوئی تجربہ نہ ہو
جب تک کہ زندگی میں کوئی حادثہ نہ ہو


کیوں بار بار آتا ہے ہونٹوں پہ تیرا نام
تجھ سے مرا پرانا کوئی سلسلہ نہ ہو


دشوار راستوں سے ڈراتے ہیں کیسے لوگ
جیسے ہمارا کوئی یہاں رہنما نہ ہو


کرتی ہوں یہ دعائیں خدا سے کہ میرا دوست
ہر بات پر خفا ہو مگر بے وفا نہ ہو


میرے خدا زمانے کا ہر غم قبول ہے
لیکن لبوں پہ میرے کبھی التجا نہ ہو


کیسے بسر ہو زندگی مجھ کو بتائیے
جب تک کہ زندگی میں کوئی آسرا نہ ہو


کوہ گراں ہے سامنے غم کا مگر صباؔ
ممکن نہیں کہیں سے کوئی راستہ نہ ہو