خیالوں میں بسا کر تجھ کو اک پیکر بناتی ہوں

خیالوں میں بسا کر تجھ کو اک پیکر بناتی ہوں
ہزاروں رنگ بھر کے دل نشیں منظر بناتی ہوں


بہت روتی ہوں جب بستی کہیں کوئی اجڑتی ہے
میں کنکر اور پتھر جوڑ کر پھر گھر بناتی ہوں


شب غم کی سیاہی میں چھلکتے ہیں جو پلکوں سے
میں قطرہ قطرہ اشکوں سے مہ و اختر بناتی ہوں


غموں کی یورشیں سہہ کر تن تنہا زمانے میں
شکستہ دل کو اپنے درد کا خوگر بناتی ہوں


ابھرتے ہیں جو چہرے ذہن کے پردے پہ خوابوں میں
نگاہوں میں چھپاتی ہوں کبھی دل پر بناتی ہوں


بکھر کے ہی نہ رہ جائے کہیں آئینے کی صورت
مرے پہلو میں جو دل ہے اسے پتھر بناتی ہوں


غزل میں آئے جو بھی لفظ دل میں تیر سا اترے
صباؔ خنجر بناتی ہوں نہ میں نشتر بناتی ہوں