وہ جیسے دنیا چلا رہا ہے

وہ جیسے دنیا چلا رہا ہے
فقط کہے کو نبھا رہا ہے


خدا کا جانے ہے کیا ارادہ
جو پھر سے ہم کو ملا رہا ہے


شروع میں کچھ جھجھک تو ہوگی
طویل عرصہ خفا رہا ہے


رچا کے سانسوں میں میری غزلیں
وہ بانسری پر سنا رہا ہے


نہیں میں اس سے خفا نہیں ہوں
جو شخص مجھ کو منا رہا ہے


تجھے محبت نے ڈس لیا نا
یہ نیل سب کچھ بتا رہا ہے


منٹ کی سوئی سے باندھ کر وہ
گھڑی میں ہم کو گھما رہا ہے


میں ایک ناظر وہ اک مصور
کئی مناظر دکھا رہا ہے


ہے سامنے ہشت پہلو رستہ
ہر اک سے گوتم بلا رہا ہے


عقب میں ہے اس کے موج سرکش
حباب کو جو بچا رہا ہے


کوئی مخاطب نہیں تھا اس کا
مرا سخن بے صدا رہا ہے


میں شعر کہنے سے ڈر رہی ہوں
خیال ہمت بندھا رہا ہے