آخرش مر ہی گیا یخ بستگی سہتا ہوا

آخرش مر ہی گیا یخ بستگی سہتا ہوا
وہ جو زندہ پل مری مٹھی میں تھا جکڑا ہوا


اب کسی کو دیکھنا ان کو گوارا ہی نہیں
دیکھ کر تجھ کو زمانے بھر سے دل اندھا ہوا


ہر بن مو گوش بر آواز ہے اس کے لیے
وہ مگر خاموش میری ہر صدا سنتا ہوا


پر سلامت ہیں مگر پھر بھی وہ اڑ سکتا نہیں
اک پرندہ کینوس پر کب سے ہے بیٹھا ہوا


وقت کے سارے ستم ہم نے سہے مل کر تو پھر
چاند میرے ساتھ آخر کیوں نہیں بوڑھا ہوا


جان کر اپنا ہی گھر اب درد رہتا ہے یہاں
دل کو خالی اس کی خاطر تو نہ تھا رکھا ہوا


یوں مسلط زندگی کر دی گئی اعصاب پر
بوجھ یہ ڈھونے میں شل احساس کا کندھا ہوا


ہو گئے تحلیل سب منظر چھوا جب آئنہ
کھل گیا یہ بھید عکس خواب تھا پھیلا ہوا