اسے پاؤں جمانے کو کنارہ مل گیا ہے
اسے پاؤں جمانے کو کنارہ مل گیا ہے
بنے گا دوست اب دشمن اشارہ مل گیا ہے
بہت روئے ہیں ماں بیٹے کسی کو یاد کر کے
بہل جائے گا بیٹے کو غبارہ مل گیا ہے
سہیلی ساتھ چلتے ہیں چل اس کی چھاؤں میں ہم
غضب کی دھوپ میں اک ابر پارہ مل گیا ہے
وہ میرا خود نگر ناراض ہو کر جانے والا
پلٹ آیا تو میں سمجھی دوبارہ مل گیا ہے
سفر کی سمت کا میں خود تعین کر چکی تھی
نہ جانے تم یہ کیوں سمجھے ستارہ مل گیا ہے
ہوئی پل بھر میں خاکستر تعلق کی عمارت
بھرے بارود کو جیسے شرارہ مل گیا ہے
ہیں اس کے سر ورق پر خار پھولوں سے زیادہ
ہمیں اگلی محبت کا شمارہ مل گیا ہے
چھپا کر ذکر کرنا تھا مرا شعروں میں اس نے
سو اس کو جل پری کا استعارہ مل گیا ہے