سپنوں کی دھارا میں بہتا رہتا ہوں
سپنوں کی دھارا میں بہتا رہتا ہوں
شبدوں کے آکار بدلتا رہتا ہوں
حال سے مستقبل سے آنکھیں بند کئے
ماضی کی دہلیز پہ سوتا رہتا ہوں
ان سے تیری شکل نہیں ملتی پھر بھی
پھولوں سے دن رات جھگڑتا رہتا ہوں
باہر گھپ اندھیارا گونگے بہرے لوگ
اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہوں
میں ہوں سر سے پا تک زہر بھرا ساگرؔ
خود ہی اپنے جسم کو ڈستا رہتا ہوں