وہ ایک شخص کہ جو آفتاب جیسا ہے

وہ ایک شخص کہ جو آفتاب جیسا ہے
قریب آئے تو تازہ گلاب جیسا ہے


خدا کرے کہ کبھی بھی نہ ٹوٹنے پائے
یہ تیرا میرا ملن ایک خواب جیسا ہے


ذرا بھی تیز ہوا ہو تو کانپ اٹھتا ہے
وہ خوش جمال تو شاخ گلاب جیسا ہے


کچھ ایسے لگتا ہے جیسے گزر گئیں صدیاں
تری جدائی کا موسم عذاب جیسا ہے


سمے کے تیز بگولوں کی زد میں ٹھہرا ہوں
مرے وجود کا دریا حباب جیسا ہے


تری جبیں پہ عبارت ہے دین عشق نیازؔ
ترا وجود مقدس کتاب جیسا ہے