کوئی بتائے کہ یہ رنگ دوستی کیا ہے
کوئی بتائے کہ یہ رنگ دوستی کیا ہے
وہ شخص پوچھ رہا ہے کہ دلبری کیا ہے
گئے دنوں کے تبسم کی راکھ بکھری ہے
ہوائے شہر مرے دل میں ڈھونڈھتی کیا ہے
فصیل جسم پہ تانی ہے کرب کی چادر
ہم اہل درد سے پوچھو کہ زندگی کیا ہے
ستم کی لہر چلی آ مجھے گلے سے لگا
مرے وجود کے آنگن میں سوچتی کیا ہے
وہ دھڑکنوں کے تلاطم سے آشنا ہی نہیں
اسے خبر ہی نہیں ہے کہ شاعری کیا ہے
جو مہ وشوں کی جبینوں سے پھوٹتی ہے نیازؔ
پرکھ سکو تو پرکھ لو وہ روشنی کیا ہے