شجر آرام دہ ہونے لگے ہیں

شجر آرام دہ ہونے لگے ہیں
پرندے رات دن سونے لگے ہیں


یہ کیسا سانحہ اب کے ہوا ہے
سبھی چھوٹے بڑے رونے لگے ہیں


محبت بانجھ دھرتی بن گئی ہے
بدن اب بے ثمر ہونے لگے ہیں


اس عہد ناروا کے اہل دانش
کبھی ٹھگنے کبھی بونے لگے ہیں


صدائیں بے صدا الفاظ بنجر
قلم ویران سے ہونے لگے ہیں


بہی خواہوں کو خوش رکھنے کی خاطر
ہم اپنے آپ پہ رونے لگے ہیں