وہ درد وہ وفا وہ محبت تمام شد
وہ درد وہ وفا وہ محبت تمام شد
لے دل میں تیرے قرب کی حسرت تمام شد
یہ بعد میں کھلے گا کہ کس کس کا خوں ہوا
ہر اک بیان ختم عدالت تمام شد
تو اب تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رہا
اٹھتی تھی جو کبھی وہ عدالت تمام شد
اب ربط اک نیا مجھے آوارگی سے ہے
پابندیٔ خیال کی عادت تمام شد
جائز تھی یا نہیں تھی ترے حق میں تھی مگر
کرتا تھا جو کبھی وہ وکالت تمام شد
وہ روز روز مرنے کا قصہ ہوا تمام
وہ روز دل کو چیرتی وحشت تمام شد
وہ میرے قرب میں ہے بہت بے سکون سا
اس کے سکون کو ہے قرابت تمام شد
اب آ کہ اپنا اپنا اثاثہ سمیٹ لیں
اب ہم پہ وقت کی ہے سخاوت تمام شد
طاہرؔ میں کنج زیست میں چپ چاپ ہوں پڑا
مجنوں سی وہ خجالت و حالت تمام شد