وہ اب دل سے تمہارے جا رہا ہے
وہ اب دل سے تمہارے جا رہا ہے
تمہیں اس کا خیال اب آ رہا ہے
میں اس کے ساتھ کو ترسا کروں گی
جو میرے ساتھ بھی تنہا رہا ہے
تو اب یہ دکھ بھی دنیا بانٹ لے گی
مجھے اس بات کا غم کھا رہا ہے
اسے تم سے محبت ہو گئی ہے
تمہارے سامنے شرما رہا ہے
بہت سے لوگ مجھ میں رو رہے ہیں
بس اک وہ ہے کہ ہنستا جا رہا ہے
جو رستے میں اکیلا رہ گیا تھا
وہ سب کو راستہ دکھلا رہا ہے
بشرطے یہ کہ کوئی بھی نہ نکلے
ہر اک دروازہ کھولا جا رہا ہے
ملوث ہے گناہوں میں تو وہ بھی
خدا کا ذکر جو کرتا رہا ہے
بہاروں سے اسے کیا لینا دینا
جو اندر سے ہی اب مرجھا رہا ہے
تمہیں اچھی نہیں لگتی یہ دنیا
فرشتوں سے یہ پوچھا جا رہا ہے
غزل کے شعر تو سب ہو گئے ہیں
مکمل ایک ہی مصرعہ رہا ہے