گھبرا گئے تھے راہ کو پر خار دیکھ کر
گھبرا گئے تھے راہ کو پر خار دیکھ کر
ہمت بندھی ہے قافلۂ سالار دیکھ کر
لوگوں کو ان پہ آج بھی ہے رشک آ رہا
بے دام بک گئے جو خریدار دیکھ کر
آقا تمہارے دم سے ہے رنگینئ حیات
ہم جی رہے ہیں بارش انوار دیکھ کر
چھاؤں میں کوئی جل رہا ہے یہ خبر نہ تھی
آئے تھے ہم تو سایۂ دیوار دیکھ کر
پھر لوٹ کر نہ جا سکے اس راہ گزر سے
ٹھہرے تھے یوں ہی زینت بازار دیکھ کر
ہر زخم اب گلاب کی مانند سرخ ہے
جی خوش ہوا ہے شدت آزار دیکھ کر